کشمیر دوبارہ1990کی طرف واپسی ؟

عاصم محی الدین

شہر سرینگر میں پے درپے 2حملوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کی نیندیں اڑا لی ہیںاور یہ حملے بتارہے ہیں کہ ایک لمبے عرصے کے بعد جنگجو سرینگر میںداخل ہوئے ۔

سرینگر ملی ٹنسی کے حوالے سے محفوظ علاقہ سمجھا جاتا تھا اگرچہ کبھی کبھار ہی حملے ہوتے۔ پولیس نے حملہ آوروں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ ملی ٹنسی کنٹرول میں ہے۔
تاہم صدر ہسپتال سرینگر سے ہائی پروفائل جنگجو نوید جاٹ کے فرار ہونے سے سیکورٹی فورسزکی اس معاملہ نے ان کی خامیوں کو عیاں کیا ہے۔
اس معاملہ میں نہ صرف جنگجوﺅں نے اعلیٰ کمانڈرکو رہائی دلائی بلکہ اس کی حفاظت پر مامور 2پولیس اہلکاروں کو بھی ہلاک کیا۔ یہ حملہ ہسپتال میں پیش آیاجہاں سے کرن نگر پولیس تھانہ نزدیک ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پولیس نے 2دنوں کے بعد معاملہ کے بارے میں اہم پیش رفت کی اور نوید جاٹ کے فرار ہونے کی مدد کرنے کے سلسلہ میں 4افراد کو گرفتار کرلیا۔ پولیس نے دعوی کیا کہ جنگجو کے فرار ہونے میں جنوبی کشمیر سے استعمال میں لائے گئے موٹر سائیکل اور گاڑی بھی ضبط کی۔ پولیس کاکہنا ہے کہ سازش کا سرغنہ بلال احمد ابھی بھی پولیس کی گرفت سے آزاد ہے ۔

کا کہ پورہ پلوامہ پہنچنے کے بعد نامعلوم مقام کی طرف گئے بلال اور نوید جاٹ کو پکڑنے کیلئے پولیس کی کارروائی جاری ہے۔ بلال پہلے اپرگراﺅنڈ ورکر تھا اور اب وہ باضابطہ طورپر ملی ٹنٹوںکی صفوں میں شمولیت کرچکا ہے اور سوشل میڈیا پر بندوق لئے اس کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ جنگجوﺅں نے حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر صدام پڈر اور ریاض نائیکو کے ساتھ نوید جاٹ کی اے کے47رائفل کے ساتھ تصویر بھی جاری کی۔

حملہ کے بعد نائیکو نے ایک صوتی پیغام جاری کیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ نوید دوسرے جنگجو کے ساتھ محفوظ مقام پر پہنچ گیا ہے۔ نوید کا تعلق لشکر طیبہ کے ساتھ ہے تاہم اے ڈی جی پی منیر خان نے حالیہ پریس کانفرنس میں کہا کہ حزب اور لشکر کے جنگجومل کر کام کررہے ہیں اور خاص طور پر جنوبی کشمیر میں۔

منیر خان نے کہاکہ نوید کو فرار کرانے کی سازش 4ماہ قبل رچی گئی تھی اور اعلیٰ کمانڈروں کے مارے جانے کی وجہ سے لشکر کو زبردست دھچکے لگے تھے۔ لشکر کی اعلیٰ قیادت نوید کو چھڑانے کیلئے موقع کی تلاش میں تھی۔ نوید کو یاری پورہ کولگام میں2014میں گرفتار کیاگیا تھا، وہ کمانڈر ابو قاسم کے کافی قریب اور اس کا جنوبی کشمیر میںاچھا خاصا نیٹ ورک تھا۔

پولیس کو خدشات ہیں کہ نوید جنوبی کشمیر میں لشکر کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرے گا۔ ریاستی حکومت نے لاپرواہی کرنے کی پاداش میں جیل سپرانٹنڈنٹ اور ڈی جی پرزنس ایس کے مشرا کو ہٹادیا ہے۔ ریاستی پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے کوتاہیوں کیلئے جیل انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA)نے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور تمام زایوں سے کیس کی تحقیقات شروع کی ہے۔ سرکاری اہلکارو ں کاکہنا ہے کہ گرفتار کئے گئے 4افراد کو این آئی اے کی تحویل میں دیاجائیگا۔

نوید جاٹ کے فرار ہونے کے معاملہ کی تحقیقات پولیس کرہی رہی تھی کہ سوموار کو کرن نگر میں سی آر پی ایف کیمپ میںجنگجوﺅں نے داخل ہونے کی کوشش کی تاہم اہلکاروںنے اسے ناکام بناایا۔ اس کے بعدجنگجووں نے کیمپ کے نزدیک ایک بڑی عمارت میں پناہ لی اورمعرکہ آرائی کے دوران ایک سی آر پی ایف اہلکاراور 2جنگجو مارے گئے ۔ دو دنوں تک چلنے والی معرکہ آرائی کی ذمہ داری لشکر طیبہ نے قبول کی۔

شہر سرینگر میں5برسوں کے بعد پہلی بارجنگجوﺅں نے فدائین حملہ کرنے کی کوشش کی۔ پچھلے ایک ہفتہ سے سراغرساں اداروں نے انتباہ دیا تھا کہ سرینگر میںایک بڑا حملہ ہوسکتا ہے اور خاص طور پر افضل گورو اور مقبول بٹ کی برسیوں پر اور کرن نگرکا حملہ اس کا حصہ ہوسکتا ہے۔

سرینگرمیں پے درپے 2حملوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کو پریشان کیا ہے۔ موسم گرما اور دربار مو کی منتقلی کے بعد جنگجو سرینگر میں داخل ہونے اور حملہ کرنے کی تمام تر کوششیں کرنے کی تاک میں ہے، اب تک جنوبی کشمیر یا شمالی کشمیرمیں ملی ٹنسی کے بڑے حملے ہوئے ہیں۔ اہلکاروں نے تازہ خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔

گذشتہ برس200 ریاستی وغیر ریاستی جنگجو ہلاک ہونے کے باوجودزیادہ سے زیادہ مقامی نوجوانوں کے عسکریت پسند بننے سے جنگجویانہ کارروائیوں کے گراف میں اضافہ ہوسکتاہے۔ کشمیر کے مختلف علاقوں میں جنگجوﺅں کی موجودگی سے سیکورٹی ماہرین کو ڈر ہے کہ آنے والا موسم گرما جنگجویانہ سرگرمیوں کے حوالے سے مشکل ہوگا۔

حالیہ عرصہ میں کشمیر کے اطراف و اکناف میں سیکورٹی کو مزید بڑھایا گیا ہے تاہم جنگجو مرضی کے مطابق حملہ کرنے کے اہل ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومت اس معاملہ پر سنجیدگی سے غورو فکر کرے اور گھڑی کی سوئیوں کو واپس 1990کی طرف نہ مڑھنے دیں تاکہ موت اور تباہی سے بچا جاسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں