یہاں کے مقامی لیڈروں نے ہی کشمیریوں کیساتھ دھوکہ کیا ،یہ مفاد پرست لوگ ہیں :سلمان نظامی

رضوان سلطان:

صحافی اور کانگریس کے نو جوان لیڈر سلمان نظا می کے ساتھ جموں و کشمیر اور بھارت کی سیاست کے علاوہ ان کے علاوہ انکے متنازعہ ٹوئٹس پر ’’خبراردو ‘‘ کے مدیر اعلیٰ عاصم محی الد ین کے ساتھ خصوصی انٹرویو ۔

عاصم :آپ دلی کی سیاست میں رہ کے بھی متنازعہ کیوں رہتے ہیں ؟

سلمان نظامی :متنازعہ آپ مجھے مانتے ہیں ،لیکن میں اسے اپنی ایک رائے مانتا ہوں،میرے دس سال کے صحافی کرئیرکو آپ دیکھ لیں، میں نے مضامین جو لکھے ہیں بہت سخت لکھے ہیں اور میں جب بھی بولتا ہوں سخت ہی بولتا ہوں،سچائی کی بنیاد پر بولتا ہوں ،تو مخالف پارٹیوں کے لوگ یا بی جے پی کے لوگوں کو کڑوا لگتا ہے ،تو وہی کڑوا ان کو متنازعہ لگتا ہے ۔

عاصم :گجرات انتخابات کے دوران آپ کے خلاف مودی نے ایک بیان بھی دیا ،آپ نے جو ٹوئٹ کئے تھے ان میں جس زبان کا آپ نے استعمال کیا تھا مودی کے خلاف وہ ٹوئٹ کیا تھے ؟

سلمان نظامی :دیکھئے پی ایم صاحب اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں ،ان کی ڈگریاں ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں ،میں نے صاف سا ٹوئٹ کیا تھا دسویں پاس لڑکا بھی سمجھ سکتا تھا ،میں نے صرف مودی جی اور گاندھی خاندان کا موازنہ کیا تھا کہ گاندھی خاندان نے دیش کو کیا دیا ،اور مودی نے کیا دیا ۔تو مودی نے اپنی زبان میں اسے توڑ مڑوڑ کے پیش کیا ،بعد میں مجھے وضاحت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میرے کچھ ساتھی بھی ناراض ہوئے ۔
لیکن بعد میں جب حقیقت سامنے آئی تو اس ٹوئٹ میں کچھ ایسا تھا نہیں جس کو مودی نے اتنا بڑھا چڑھا کے پیش کیا ، وہ بالکل پریشان ہو گئے تھے کیونکہ میں ایک مہینے کیلئے گجرات میں تھا تو مودی کو جس طریقے سے ہم نے اپنی ریلیوں میں بے نقاب کیا ،جس کے بعد آپ نے کرناٹک کے نتائج بھی دیکھے ۔

عاصم: یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ سیاست کے لئے مظلوم مسلمانوں کو بیچتے ہیں ،جبکہ جمہوریت توخیالات کی جنگ ہے ؟

سلمان نظامی : دیکھئے بات صرف مسلمانوں نہیں ہے ،میں بات اقلیتوں کی بھی کرتا ہوں اور اقلیت کوئی مذہب نہیں ہوتا ،جموں کشمیر میں اقلیت میں ہندو ،سکھ اور عیسائی آتے ہیں ،اصل میں بات زیادتی کی ہے ۔آج جو سیاست ہے وہ چاہے بھارت کی ہو یا امریکہ کی ہو ، آج اسلاموفوبیا (اسلام اور مسلمانوں سے خوف ) ہے ۔مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے ان کا قتل عام کیا جاتا ہے۔
وہیں بھارت میں جو ماب لنچنگ(ہجوم میں اکھٹا ہوکے کسی کی پٹائی کرنا ) ہوئی ،میں نے مودی سے کہا کہ جو گاؤ خانے ہیں ان کے مالک تو ہندو ہیں اور جو گوشت پاکستا ن اور دوسرے ملکوں میں بھیجاجاتا ہے اس سے تو سرکار کڑوڑوں پیسے کماتی ہے تو ان غریب لوگوں کو کس جرم میں مارا جاتا ہے ۔قتل عام ان کا ہونا چاہیے جو گوشت پر پیسہ کماتے ہیں ۔

عاصم : کیا آپ چاہتے ہیں کہ بیف پر پابندی لگنی چاہیے؟

سلمان نظامی: ہاں مذہب کی جہاں بات آئے ہم مذہب کے خلاف نہیں جا سکتے،ہم نے بہت جگہوں پر شراب کے خلاف آواز اٹھائی لیکن میں نے کسی ہندو کو اس کے خلاف بات کرتے نہیں دیکھا ۔اسی طریقے سے اگر کسی ہندو کو بیف سے پریشانی ہے تو ہمیں اسے اکسانا نہیں چاہیے اسکے لئے قانون ہے اور قانون کی پیروی کریں ،وہیں اگر بھاجپا قانون کو نہیں مانتی تو وہ ہندوستانی کہاں ہیں۔

عاصم :آپ نے کشمیر میں ہو رہے قتل عام کی بات کی،نہ تو یہ اب بھاجپا کے دور میں شروع ہوا ، اور نہ ہی ختم ہو گا کیونکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی تاریخ ہے ۔ تو 2008 میں یہاں کانگر یس کی سرکار تھی ، اس سے پہلے 1990کے ملی ٹنسی کے دور میں بھی تھی ،کیا آپکو نہیں لگتا کانگریس بھی اس کیلئے ذمہ دار ہے ۔

سلمان نظامی: دیکھئے اسوقت کے دور میں اور آج کے دور میں بہت فرق ہے ،اُس وقت ایک الگ ماحول تھا ور آج ایک الگ ماحول ہے ،آج پی ڈی پی معذور ہو گئی ہے کیوں کہ ان کو بھاجپا نے یتیم کی طرح چھوڑ دیا ،لیکن جب یہاں عمر عبد اﷲ وذیر اعلیٰ تھے تو کانگریس نے مرکز سے ان کو پورا سپورٹ دیا،کانگریس نے کبھی بھی کشمیریوں سے یہ نہیں کہا کہ آپ آرمی کیمپ میں ٹافی لینے گئے تھے؟

عاصم:1988میں جو کشمیر کے انتخابات میں جمہوریت پر دھبہ لگا وہ کانگریس کے دو ر میں لگا ،افسپا کا نگریس کے دور میں یہاں آئی ،اسکے علاوہ انسرجنسی جو ہوئی وہ بھی کانگریس کے دور میں ہوئی ،بھاجپا نے صرف یہاں پے تین سال کی حکومت کی،تو آپ یہ سارا گھما پھرا کے بھاجپا پر کیوں لاتے ہیں ؟

سلمان نظامی: اس وقت کا آپ کانگریس پرالزام نہیں لگا سکتے اسوقت تو وی پی سنگھ (سابق وزیر اعظم ہند ) کی حکومت تھی اور مرحوم مفتی صاحب مرکز میں وزیر داخلہ تھے ،تو کا نگریس کہاں سے بیچ میں آئی ،کانگریس نے یہاں حکومت ہی کب کی ، ریاست میں تو کانگریس کو کم وقت ملا ،غلام نبی آزاد کو صرف دو سال ملے جس میں آپ نے دیکھا انہوں نے کیا انقلاب لایا ۔
کشمیری ہونے کے ناطے اور ایک مقامی لیڈر ہونے کے ناطے میں یہ کہوں گا کہ یہاں کے مقامی لیڈروں نے ہی کشمیریوں کے ساتھ دھوکا کیا ،چاہے وہ پی ڈی پی یا این سی ہو یہ مفاد پرست لوگ ہیں ،سجاد لون ۲۰ سال سے بھارت کو گالیاں دیتے تھے ،اور آج وہ بھاجپا کی گود میں بیٹھ گئے ہیں ۔یہ سارے دوغلے لوگ ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ پی ڈی پی کے خلاف عمران رضا انصاری کے علاوہ باقی لیڈر بغاوت کر رہے ہیں ،یہ چار سال سے کہا ں تھے ۔

عاصم : 2008 میں این سی نے کانگریس کے ساتھ ریاست میں سرکار بنائی تو تب کون سے ترقی کے پہاڑ توڑے گئے ؟
سلمان نظامی :غلام نبی آزاد نے مرکزی و زیر صحت ہوتے ہوئے پانچ میڈیکل کالج دلوائے ۔

عاصم : لیکن وہ تو آج تک قائم نہیں ہو پائے ؟

سلمان نظامی : وہ تو عمر عبداﷲ کو فالو کرنا تھا مرکز نے تو کوئی کمی نہیں رکھی ،غلام نبی آزاد نے تو پانچ میڈیکل کالج کی منظوری دلوائی لیکن وہ آج تک نو سال کے بعد بھی نہیں بنے ،آزاد صاحب مرکز کو دیکھتے یا ریاست کو دیکھتے ،یہ عمر صاحب سے لاپر واہی ہوئی ۔

عاصم : آپ نے جب ان کے ساتھ سرکار بنائی تھی تب آواز کیوں نہیں اٹھائی ،جیسے آج ایسا مانا جا تا ہے کہ بھاجپا نے کہا کہ سرکار ناکام ہو گئی اسی لئے اتحاد توڑا ؟
سلمان نظامی : ہمارا این سی کے ساتھ اتحاد ٹھیک چل رہا تھا ،ہم نے کالج اور پرائمری ہلتھ سنٹرس وغیرہ کی منظوری دلوائی لیکن پھر نئی سرکاروں نے فالو نہیں کیا ،اب اگر عوام نے موقع دیا تو ہم ان کاموں کو آگے برھائیں گے ،لیکن اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے ،اگر لوگوں کا قتل عام ہو اور لوگ ہی نہ بچیں تو سڑکیں اور عمارتیں بنا کے کیا کریں گے ۔

عاصم : تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟
سلمان نظامی : بھاجپا نے یہاں گھمنڈ دیکھایا اور مودی نے اپنا ہی چلایا ،یہ گھمنڈ اٹل جی نے نہیں دیکھایا انہو ں نے پاکستان سے بات کی ،حریت کے لیڈران کو دلی بلایا ،لیکن مودی اپنی ہی چلا رہے ہیں ۔

عاصم : کشمیر کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک کشمیر ی مسلمان ہو نے کے ناطے پھر مین سٹریم میں آنا وہ بھی دلی میں تو آپ کیسے اپنا مستقبل دیکھتے ہیں؟

سلمان نظامی : دیکھئے کشمیری مسلمان کا مین سٹریم میں آنا ہندوستان کی لیڈرشپ آپ کو نہیں نکاررہی، آزاد صاحب نے آج ایک اچھا بیان دیا کہ آپ جنگجوؤں کو مارے لیکن آپ عام شہریوں کو کیوں مارتے ہیں اس میں ان کا کیا قصور ہے ۔ لیکن بھاجپا کا آپ دیکھئے منسٹر تک کہتے ہیں کہ عام لوگوں کو بھی مار ڈالو ،اس سے لوگ آپ سے دور جا رہے ہیں ، لوگ بھارت کیساتھ ایک پل کا کام کرتے ہیں۔
لیکن جب آپ نے غلام نبی آزاد صاحب جیسے لوگوں کو بھی دیش دروہی بنا دیاجس نے 40سال بھارت کو دئے ،اور کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑ کے رکھا ،اور اس کرئیر میں لیڈر آف اپوزیشن بنے ،مرکزی وزیر بنے ،چیف منسٹر بنے ،اور اب چالیس سال کے بعد آپ بولتے ہیں کہ آزاد صاحب دیش دروہی ہیں تو پھر کشمیر میں نیشنلسٹ کون ہے ،سجاد لون نیشنلسٹ ہیں کیا ،جس نے ۲۵ سال بھارت کو گالیاں دیں اور آج بھاجپا کیساتھ جڑ گیا ،اور سجاد لون نیشنلسٹ بن گیا ۔
اور چالیس سال تک جس نے بھارت کا جھنڈا تھام کے رکھا وہ آج دیش دروہی بن گیا ۔تو مین سٹریم میں جو کشمیر کے نوجوان آنا چاہتے ہیں وہ ان باتوں سے دور ہوتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں