ریاست کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی گلے لگانے کی پالیسی کو دیا سیاسی بیان بازی قرار

خبراردو:
وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیریوں کو گلے لگانے کی پالیسی کو سیاسی بیان بازی قرار دیتے ہوئے ریاست کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بتایا کہ ایسے بیانات سے کچھ بھی حاصل ہونیوالا نہیں ہے جب تک نہ ان کو زمینی سطح پر من و عن عملایا جائے۔ کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر نے بتایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس طرح کے بیانات کا ریاست میں کوئی خریدار نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قسم کی باتوں کا اب دم نکل چکا ہے کیوں کہ وزیرا عظم نے گزشتہ سال بھی ایسے الفاظ دہرائے تھے تاہم اس عرصے کے دوران زمینی سطح پر اس کے برعکس عملایا گیا۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کو اچھا موقعہ فراہم ہوا تھا کہ وہ اپنے بیان کو زمینی سطح پر عملائے لیکن وہ اس دوران مکمل طور پر ناکام ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ ایسے حالات میں اس قسم کے بیان کا بالکل دم نکل چکا ہے اور فی الوقت ان الفاظ کی کوئی وقعت نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ ریاست جموں وکشمیر میں فی الوقت گورنر راج نافذ العمل ہے لہٰذا پنچائتی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے گورنر انتظامیہ کو زمینی سطح پر حالات کا جائزہ لے کر ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ گورنر کو ریاست میں پنچائتی اور بلدیاتی انتخابات کو منعقد کرانے کے لیے پرامن اور سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا اور اس معاملے میں امن و قانون کی صورتحال کی پوری ذمہ داری اپنے سر لینی ہوگی۔اگر گورنر انتظامیہ ریاست میں امن و قانون کی صورتحال کی پوری ذمہ داری اپنے اوپر لیتی ہے تو کانگریس جمہوری اداروں کی مضبوطی اور استحکام کے لیے الیکشن پراسس کا حصہ بنے گی۔

ادھر نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے بتایا کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایسا بیان پہلے بھی جاری ہوا تھا تاہم ابھی تک زمینی سطح کو کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔بات اور عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ، اگر وزیر اعظم نے اپنی باتوں کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو یہاں آج صورتحال میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملتی۔انہوں نے بتایا کہ اگر مرکزی سرکار اپنے بیانات میں سنجیدہ ہے تو انہیں ٹھوس اقدامات اٹھا کر زمینی صورتحال پر انہیں عملانا چاہیے۔ریاست میں رواں برس منعقد ہونے والے پنچائتی اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے این سی لیڈر نے بتایا کہ فی الوقت یہاں انتخابات کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔

ہمیں نہیں لگتا کہ موجودہ حالات میں لوگ گھروں سے باہر آکر انتخابات میں شریک ہوجائیں گے۔ہم نے ہمیشہ ریاست میں امن کی بحالی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی اور ان کے استحکام کے حوالے سے حمایت کی ہے تاہم اس بار ریاستی گورنر این این ووہرا کو امن و قانون کے حوالے سے ذمہ داری لینی ہوگی اور یہ بات دیکھنی ہوگی کہ کیا لوگ الیکشن میں حصہ لیں گے یا نہیں؟ اس دوران سی پی آئی ایم کے ریاستی سیکرٹری اور ایم ایل اے کولگام محمد یوسف تاریگامی نے بتایا کہ کشمیریوں نے آج تک بہت کچھ سہا ہے جس کے نتیجے میں سماج کے ہر طبقے میں مایوسی پھیل چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کشمیر معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک بڑے اور ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے۔کشمیر کا مسئلہ صدیوں سے سلگتا آرہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عوام میں مایوسی غالب آچکی ہے اور لوگ اجنبیت کے ماحول میں جی رہے ہیں۔

لہٰذا مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اور سنجیدہ اقدام کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ لال قلعہ کی فصیل سے وہی پرانے الفاظ دہرائے گئے جس سے واضح ہوگیا کہ نئی دہلی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے۔گزشتہ برس کے دوران بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے یہی الفاظ بولے تاہم ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی زمینی سطح پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی بلکہ اس دوران غیر یقینیت میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بالکل عیاں ہے کہ کشمیر میں خون خرابہ جاری ہے لہٰذا اس سب کا تدارک کرنے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانا ناگزیر ہے۔KNS

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں